حرفِ آغاز

آزادیٔ اظہار رائے کا بے جا استعمال

حبیب الرحمن اعظمی

 

آج کی دنیا میں تہذیب و تمدن کی امامت کا مدعی، حقوق انسانی کی پاسداری کا ڈھنڈھورچی، جینوا معاہدہ کا سب سے زیادہ راگ الاپنے والا اور امن عالم کابزعم خویش ٹھیکیدار یورپ اوراسکا موجودہ سیاسی و ثقافتی پیشوا امریکہ کے طرز فکر و عمل نے عالم انسانیت کو جن تباہ کن خطرات سے دوچار کردیا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، بالخصوص امریکہ نے اپنے عفریتی کردار سے انسانیت کی جس قدر تحقیر و تذلیل کی ہے اس کی مثال شاید عہد جاہلیت میں بھی ڈھونڈھی نہ جاسکے گی۔

یہی وہ انسانی بھیڑئیے ہیں جن کی چیرہ دستیوں سے ماضی میں رہوڈیسیا کی سرزمین مظلوم انسانوں کے خون سے رنگین ہوچکی ہے، یہی وہ ظلم پیشہ طاقتیں ہیں جن کے جور مسلسل سے بدحال کینیا کا نالہ وشیون تاریخ کے کانوں سے آج بھی سنا جاسکتا ہے، یہی وہ دشمن انسانیت گروہ ہے جس کی سفاکیوں نے جنوبی افریقہ کے باشندوں کے خون کو بول و براز سے بھی بے وقعت بنادیا تھا، یہی وہ انسان نما وحشی درندے ہیں جن کا ذوق خون آشامی تیس سال کی طویل مدت تک موت و ہلاکت کا طوفان بن کر ویت نامیوں پر مسلط رہا۔

اور ابھی ماضی قریب میں بغیر کسی معقول وجہ، واقعی بنیاد اور سیاسی واخلاقی جواز کے انسانیت کے اس حریف نے کمزور و تہی دست افغانستان کو اپنی جارحیت اور دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور ہزاروں ٹن آتشیں گولے برساکر نہ جانے کتنے معصوم بچوں نحیف و ناتواں بوڑھوں، خانہ نشین بے خبر عورتوں اور ملک و قوم کے آسرا نوجوانوں کو بارود کے آتشیں سمندر میں ہمیشہ کے لیے غرق کردیا، اورافغانستان کو افلاس و محرومی،تباہی وبربادی کے ایسے غار میں دھکیل دیا جہاں سے وہ صدیوں میں بھی نہ نکل سکے گا۔ ”الا ان یشاء اللّٰہ العزیز“

افغانی عوام اور سرزمین افغانستان کو تہس نہس کردینے کے بعداس غارت گر انسانیت نے اپنے اگلے ہدف کے لیے قدیم اسلامی مملکت عراق کو منتخب کیا، ”اور خوئے بد را بہانہ می باید“ کے مطابق حکومت عراق کے خلاف ایک ایسا جھوٹا الزام تراشا گیا جسے بہزار دجل و فریب بھی صحیح ثابت نہیں کیا جاسکا، بلکہ خود امریکہ کے تفتیشی مشن نے اپنی رپورٹ میں اسے یکسر غلط اور من گھڑت بتایا ہے، مگر اسی خود تراشیدہ، بے بنیاد الزام کو بنیاد بناکر عراق پر حملہ کردیاگیا، جس میں نہ کسی محترم شخصیت کے مدفن و مقبرہ کی حرمت و عزت کا پاس و لحاظ کیاگیا، اور نہ کسی مقدس و متبرک عبادت گاہ کے تقدس و پاکیزگی کو خاطر میں لایاگیا بلکہ بغیر کسی فرق و امتیاز کے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ اس آگ و خون کے سیل رواں میں کس قدر انسان غرقاب ہوئے اس کی صحیح تعداد خدا ہی کو معلوم ہے، اور آج بھی ہزاروں عراقی عوام اپنے ناکردہ گناہ کی سزا میں پس دیوار زنداں زندگی گزارنے پر مجبور کردئیے گئے ہیں، جہاں وہ کن کرب ناک اور حیاسوز حالات سے دوچار ہیں اس کا ہلکا سا اندازہ عراق کے ابوغریب جیل میں مقید عراقیوں کی ان تصویروں سے ہوسکتا ہے جنھیں ابھی چند ہفتہ پہلے الیکٹرونک میڈیا نے عالم آشکارا کیا ہے، جسے دیکھ کر کچھ دیر کے لیے شیطان بھی شرمشار ہوئے بغیر نہ رہ سکا ہوگا۔، اور انسانیت نوحہ کناں ہے کہ ربِ کائنات جس انسان کو تونے برو بحر کی جملہ مخلوقات پر فوقیت اور کرامت و بزرگی کی خلعت سے سرفرازکیا آج اسی مکرم ومحترم مخلوق کو دن کی روشنی میں کس طرح سے توہین و تذلیل کا شکار بنایا جارہا ہے۔

تہذیب و تمدن کی امامت کے یہ مدعی اور حقوق انسانی کے نام نہاد محافظ بتائیں کہ کیا تاریخ کے کسی دور میں خود انسانوں کے ہاتھوں انسانیت کی اس قدر تحقیر و تذلیل ہوئی ہے؟

حقوق انسانی، انسانی اقدار و احترام اور آزادیٴ اقوام کے محافظ و پاسبان ادارہ اقوام متحدہ کے روبرو حق و انصاف کا قتل عام ہوتا رہا، انسانی ناموس کے دامن کو تار تار کیاجاتا رہا، انسانوں کی بے بس آبادیاں بموں کی بے پناہ بارش سے جلتی رہیں مگر وہ مہر بلب خاموش تماشائی بنا رہا اور امن کا نوبل انعام یافتہ اس کا ذمہ دار امریکہ کی رسوا کن قتل گاہ میں انسانیت کی بے دریغ رسوائی و تباہی کو فراخ دلی کے ساتھ انگیز کرتا رہا، اقوام متحدہ اوراس کے آقاؤں امریکہ اوریورپ کے اس غیرمعقول، عدل وانصاف سے عاری رویے پر ظلم و انصاف کی تاریخ کا جائزہ لینے والا مبصر یہ تبصرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آج کی دنیا میں عالم انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ امریکہ اور اس کے حمایتی یورپ کا وجود ہے، اور یہ اقوام متحدہ جسے ہرچہار طرف سے انسانی حقوق، مساوات اور آزادی اقوام کے دلفریب پردوں سے سجایا گیا ہے صحیح معنوں میں انسانیت کا بین الاقوامی مذبح ہے۔

حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی

یورپ اپنی اسلام دشمنی میں اس قدر بدمست ہوگیا ہے کہ اب براہ راست بنی نوع انسان میں سب سے عظیم و محترم شخصیت رحمت عالم  صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر اتر آیا ہے، چنانچہ ڈنمارک کے ایک بدباطن، انسانی تہذیب سے عاری ابلیس صفت ایڈیٹر نے اپنے اخبار میں محسن انسانیت پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم کا توہین آمیز کارٹون شائع کیا، اور اس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کی غرض سے فرانس، جرمنی، اسپین، سوئزرلینڈ، ہنگری وغیرہ یورپی ممالک کے اخباروں نے بھی اس کی نقل کی ہے، جبکہ اپنے اور پرائے سب اس پر متفق ہیں کہ آپ دنیائے انسانیت میں سب سے بااخلاق، باکردار اور اعلیٰ صفات کے حامل ہیں۔ چنانچہ اعلان نبوت کے بعد جب مشرکین مکہ آپ کے سخت ترین مخالف ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قسم قسم کے الزامات عائد کرنے لگے تو انھیں کی جماعت کے ایک جہاندیدہ، تجربہ کار فرد نضر بن حارث نے بھرے مجمع میں یہ اعلان حق کیا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے سامنے ایک بچہ سے پل کر جوان ہوئے، وہ اب تک تم میں سب سے زیادہ پسندیدہ، بات میں سب سے سچے، امانت میں سب سے پکے، اور سب سے زیادہ رحمدل تھے، اب جبکہ ان کے بالوں میں سفیدی آچلی ہے اور انھوں نے تمہیں دعوت حق دی تو تم انھیں جادوگر اور دیوانہ کہتے ہو، خدا کی قسم میں نے ان کی باتیں سنی ہیں (جو تم کہتے ہو) ان میں کوئی بات نہیں۔

اسی طرح ایک مستشرق عالم جان ڈیون اپنی مشہور کتاب ”اپالوجی فار محمد اینڈ دی قرآن“ میں اس سچائی کا اعتراف یوں کرتا ہے کہ

”بلاشبہ تمام قانون سازوں اور فاتحوں میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کے وقائع زندگی، محمد  صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سچے اور صاف و روشن ہوں۔“

ایک دوسرا مستشرق یوں اعتراف حق کرتاہے کہ

”ہم محمد کی بیرونی تاریخ کی ہر چیز جانتے ہیں ان کی جوانی، ان کا ظہور، ان کے تعلقات، ان کے عادات، ان کا پہلا تخیل اور تدریجی ترقی ان کی عظیم الشان وحی کا نوبت بنوبت آنا وغیرہ وغیرہ الخ“

غرضیکہ آپ کی پوری زندگی ایک صاف و شفاف آئینہ کی طرح روشن و تابناک ہے، اور آج دنیا میں خیر و بھلائی حکمت و دانائی،اور صالح تہذیب و تمدن کی جو شکلیں بھی پائی جارہی ہیں یہ سب درحقیقت آپ ہی کی صفات حمیدہ کا پرتو اور آپ ہی کی حق نما تعلیمات کا مظہر ہیں۔

ایسی عظیم شخصیت کے ساتھ توہین آمیز رویہ بجائے خود انسانیت کا دیوالیہ پن ہے اور ایسی قبیح حرکت کا ارتکاب کرنے والے اس قابل نہیں کہ انھیں انسانوں کے زمرے میں شمار کیاجائے، یہ انسان نما حیوان ہیں، دنیائے انسانیت کے لیے ایسے شیطان صفت انسانوں کا وجود باعث ننگ و عار ہے۔

یورپ کے جو لوگ آزادیٴ رائے کا سہارا لے کر ان مجرمین کی ہمت افزائی کررہے ہیں کیا وہ بتائیں گے کہ ایران کے سربراہ احمدی نزاد نے ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کی مشہور مظلومیت کی روداد کے بارے میں جب اپنی اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ اس کے بیان میں مبالغہ آرائی سے کام لیاگیاہے، لہٰذا اس کی مزید تحقیق کی ضرورت ہے تو پورا یورپ کیوں چیخ اٹھا تھا یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری نے بھی اس موقع پر خاموش رہ جانا گوارا نہیں کیا؟ کیا آزادیٴ رائے کا حق صرف یورپ ہی کو ہے وہ جو چاہے اور جس کے بارے میں چاہے بکواس کرے۔ ”تفو بر تو اے فکر مغرب تو“

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ2، جلد: 90 ‏،محرم1427 ہجری مطابق فروری2006ء